یہ سچ ہے اسے لوٹ کے آنا تو نہیں ہے
یہ بات بھی سچ ہے کہ منانا تو نہیں ہے
چاہا ہے تجھے میں نے دل و جاں سے زیادہ
اس پیار کو اب دل سے بھلانا تو نہیں ہے
کب تک یہ ترا ظلم غریبوں پہ چلے گا
معصوموں کا یہ جیل ٹھکانا تو نہیں ہے
وہ شاہ تھا جس نے دی محبت کی نشانی
اب تاج محل ہم کو بنانا تو نہیں ہے
سچائی کا کوئی بھی خریدار نہیں ہے
یہ ایک حقیقت ہے فسانہ تو نہیں ہے
سچ بات ہی کرتا ہوں ہر اک موڑ پہ سید
مجھ کو بھی پتہ ہے کہ زمانہ تو نہیں ہے
سید ابوبکر مالکی

0
251