| میٹھے دو لفظوں کو ہم پیار سمجھ لیتے ہیں |
| عشق میں خود کو گرفتار سمجھ لیتے ہیں |
| طائرِ عشق اسیری کو سمجھتے ہیں بہار |
| قفسِ عشق کو گلزار سمجھ لیتے ہیں |
| قصئہِ عشق کے آغاز سے پہلے جاناں |
| آؤ اک دوجے کے کردار سمجھ لیتے ہیں |
| ہیر رانجھے کی طرح ہم بھی نہ دھوکا کھائیں |
| کون ہے سچا طرفدار سمجھ لیتے ہیں |
| شیریں فرہاد سا انجام نہ ہونے پائے |
| ٹوڑنا کیسے ہے کہسار سمجھ لیتے ہیں |
| بیچ دریا میں نہیں کچے گھڑے پر مرنا |
| کیسے لگنا ہے ہمیں پار سمجھ لیتے ہیں |
| سنگباری کی سزا لیلی و مجنوں نے سہی |
| ہم نہ ٹھہریں گے سزا وار سمجھ لیتے ہیں |
| عشقِ پاکیزہ کو رکھنا ہے بچا کر ان سے |
| وہ جو یوسف کو گنہ گار سمجھ لیتے ہیں |
| خود غرض لوگ جہاں عشق سے اکتا جائیں |
| عشق کو جان کا آزار سمجھ لیتے ہیں |
| اک فقط تو ہی نہ سمجھے دلِ مضطر کی زباں |
| تکیہ بستر درو دیوار سمجھ لیتے ہیں |
| رفعتِ فن انہیں قدموں میں پڑی ملتی ہے |
| اپنا کردار جو فنکار سمجھ لیتے ہیں |
| حسن کی دیوی کا بے وجہ مہرباں ہونا |
| کسی سادھو کا چمتکار سمجھ لیتے ہیں |
| شاعری میری کہاں ان کو سمجھ آئے گی |
| یہ بھلا کم ہے کہ اخبار سمجھ لیتے ہیں |
| داد دیتے ہیں وہی کھل کے سخن ور کو سحاب |
| جو سخن فہمی سے اشعار سمجھ لیتے ہیں |
معلومات