| وہ اپسرائے گماں گر زمیں پہ سانس بھی لے |
| دکھائی دینے لگیں دشت میں بھی پھول کھِلے |
| یہ میرے لہجے کی تاثیر ہے کہ وہ خوش رُو |
| بلاؤں چاند تو چمکے ، کلی کہوں تو کھِلے |
| گلاب کس طرح ہنستے ہیں مجھ کو دیکھنا تھا |
| اِدھر یہ آرزو اُبھری ، اُدھر وہ ہونٹ ہِلے |
| بس ایک بار کسی کو گلے لگایا تھا |
| ہر اک ستارے کی خواہش ہے مجھ سے روشنی لے |
| کسی نے رات مرے کان میں کی سرگوشی |
| وہ شخص عام نہیں ہے کہ ہر کسی کو ملے |
| لباسِ عشق جو پہنا تو پھر اتارا نہیں |
| لگے رہے مرے الماریوں میں سوٹ سلے |
| صدائیں دیتا ہے صحرا میں کوئی دیوانہ |
| جسے ہے خواہشِ وحشت وہ آ کے مجھ سے ملے |
| دبا سکا نہیں اپنے ضمیر کی آواز |
| نہ بند کیں کبھی آنکھیں نہ میرے ہونٹ سِلے |
| تہی رہے ہیں محبت پہ کاربند قمرؔ |
| جو کاربند نہیں تھے ملے انہی کو صلے |
| قمرآسیؔ |
معلومات