| الجھنیں حل طلب ہے چھوڑ گیا |
| جانے کیوں بے سبب ہے چھوڑ گیا |
| جس کو میں دل و جاں سے چاہتا تھا |
| مجھ کو نا جانے کب ہے چھوڑ گیا |
| جس کی شدت سے اب ضرورت تھی |
| ہائے کمبخت کب ہے چھوڑ گیا |
| لمحہ بھر کو بھلانا ہے مشکل |
| یادیں بھی وہ غضب ہے چھوڑ گیا |
| وہ مجھے کب کا چھوڑ چکا تھا |
| میں یہ سمجھا کہ اب ہے چھوڑ گیا |
| نیند اس کے بنا نہیں آتی |
| عادتیں بھی عجب ہے چھوڑ گیا |
| زندگی کی حسین یادوں میں |
| ایک رنگین شب ہے چھوڑ گیا |
| دشت کے ریگزاروں میں عاصم |
| فصلِ گل کی طلب ہے چھوڑ گیا |
معلومات