نہ سکوں ہے دلِ ویراں کو اب، نہ قرار ہے
ہے مری روح کا ہر ذرہ فقط ایک غبار ہے
کچھ بھی ہوتا نہیں دراصل مرے پاس نیا
وہی تنہائی، وہی رنج، وہی فصلِ بہار ہے
ایک دیوار ہے حائل مری خواہش اور مجھ میں
اور اک فاصلہ ہے جو نہیں ہوتا کبھی پار ہے
کیا بتاؤں تجھے کتنی ہی اداسی کی شام
بُجھ گیا دل میں جو روشن تھا وہی ایک چراغ ہے
کوئی منزل ہے، کوئی راستہ اور نہ کوئی یار
اک عجب دشتِ بلا ہے، اک عجب کار و بار ہے
ایک ہی بات ہے بس، ایک ہی غم ہے جو مرے
ہر نفس میں وہی تنہا ہے، وہی بے اختیار ہے
اب تو یہ حال ہے اپنا، نہ کوئی کام مرا
اک تری یاد ہے بس، اور اک یہ روزگار ہے
تم کو کیا علم کہ اس دل میں چھپا کیا ہے ندیم
اک تِری یاد ہے اور آنکھ میں اشکوں کا شمار ہے

0
4