سمٹی آئی ہے ساری جنگ مرے اندر
جُود و سخا کے سارے رنگ مرے اندر
نفس کی وادی، دل کی رات، سکوتِ جاں
بول اُٹھے ہیں سارے سنگ مرے اندر
ذکر کی خوشبو، فکر کی جلتی ساعتیں بھی
گھوم رہے ہیں جیسے چنگ مرے اندر
تُو ہی تُو ہے، مگر میں بھی کہیں باقی ہوں
کیا ہے چھپا ہوا کوئی دَرگ مرے اندر؟
کتنی آنکھیں، کتنے چہرے، کتنے خواب
جاگ رہی ہے تیری جَنگ مرے اندر
لب ہیں چُپ ، دل میں شورِ انا الحق ہے
کیا کسی نے رکھا ہے زنگ مرے اندر؟
اآنکھ میں اِفری تھا عکسِ فنا کا جمال
دیکھتا تھا وہ بھی اک رنگ، مرے اندر

0
2