زندگی اک سفر ہے، راہوں کی روشنی سے بنا
ہر خوشی ہے چھوٹی، ہر غم بھی سبق سے بنا
وقت کی روانی میں، ہر لمحہ صبر سے گزارا
خوابوں کی روشنی ہے، امید کے سہارا سے بنا
دوستی کا ہاتھ تھام، غم کو بانٹ لے دل میں
محبت کی خوشبو ہے، دل کی رونق سے بنا
جو رکے نہ چلیں، وہی آگے بڑھتا ہے راہ میں
صبر کا پھل میٹھا ہے، وقت کے امتحان سے بنا
خوشی کے لمحے سنبھال، دکھ کے سائے جھیل لے
زندگی کا حسن تو تجربات کی روشنی سے بنا
ہر ناکامی ہے سبق، ہر کوشش ہے چراغ علم کی
اندھیروں میں بھی رہنما، امید کی روشنی سے بنا
نئے دن کی ابتداء، نئے خوابوں کے ساتھ ہو
ہر سانس کا تقدس، ہر لمحہ دعا سے بنا
ہر پل زندگی کا، سکون اور روشنی لائے دل میں
ہر لمحہ دل کو اپنی حقیقت سے بنا
زندگی اک خواب کی مانند، ہر لمحہ صبر و امید
خوشی و غم سب سنگ، ندیمؔ کے قول سے بنا

0
9
44
جناب اپنی معلومات کے لیئے پوچھنا چاہوں گا یہ جو کلام آپ لکھتے ہیں یہ ادب کی کونسی صنف کہلاتا ہے؟

0
ادبی صنف: غزل

یہ کلام غزل کی صنف سے تعلق رکھتا ہے۔
غزل اردو ادب کی سب سے معروف، مقبول اور قدیم شعری اصناف میں سے ایک ہے۔
اس کی بنیاد عشق، احساس، تجربہ اور وجدان پر ہوتی ہے۔
روایتی طور پر غزل کا موضوع “عشقِ مجازی” رہا ہے،
لیکن بڑے شعرا نے اسے “عشقِ حقیقی” اور “زندگی کے فلسفے” تک پھیلا دیا —
بالکل ویسے ہی جیسے حضرت نصیر الدین نصیرؒ، علامہ اقبالؒ، میرؔ، اور غالبؔ نے کیا۔


---

غزل کی خصوصیات ( کے کلام کے حوالے سے):


اور “چھل، سبق، چھاؤں، میٹھاس


2. موضوع اور احساس:
اس غزل میں موضوع زندگی ہے —
یعنی زندگی کا سفر، اس کی آزمائشیں، صبر، امید، اور تجربات۔
یہ سب فلسفیانہ اور روحانی غزل کے ذیل میں آتا ہے۔


3. اسلوب
یہ کلام حضرت نصیر الدین نصیرؒ کے طرزِ سخن سے متاثر لگتا ہے —
نرم، پُراثر، وجدانی، اور دل کو چھو لینے والا۔
الفاظ عام فہم ہیں مگر معنی گہرے ہیں۔


4. روحانی رنگ:
اس غزل میں “روشنی، دعا، امید، صبر، حقیقت” جیسے الفاظ بار بار آئے ہیں،
جو روحانیت، امید، اور خود آگہی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔
یہی انداز اسے “عرفانی غزل” بناتا ہے۔


5. فلسفیانہ پیغام:
ہر شعر زندگی کے کسی پہلو کی عکاسی کرتا ہے —
جیسے تجربہ، وقت کا بہاؤ، دوستی، صبر، اور حقیقت کا شعور۔
یعنی یہ کلام قاری کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے،
جو فلسفیانہ شاعری کی نشانی ہے۔

نتیجہ:

یہ کلام اردو ادب کی صنف “غزل” سے تعلق رکھتا ہے،
اور ذیلی نوع کے طور پر یہ “فلسفیانہ و عرفانی غزل” کہلاتا ہے۔
اس کا موضوع زندگی کی حقیقت، صبر، امید، اور روحانی شعور ہے۔
انداز حضرت نصیر الدین نصیرؒ سے متاثر ہے —
سادہ زبان، مگر گہرا مفہوم اور وجدانی احساس۔



0
جناب، یہ کلام اردو ادب کی معتبر صنف “غزل” سے تعلق رکھتا ہے۔
یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ زندگی، صبر، امید اور حقیقت کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی ہے۔
اپنے مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے یہ فلسفیانہ اور عرفانی (روحانی) غزل کے زُمرے میں آتی ہے،
جس میں جذبات کے ساتھ ساتھ تفکر اور احساس کی گہرائی بھی پائی جاتی ہے۔
اس کا طرزِ بیان حضرت نصیر الدین نصیرؒ کے اندازِ سخن سے متاثر ہے —
سادگی میں وقار، اور نرمی میں اثر۔

0
بہت شکریہ سر
جہاں تک مجھ کم علم کی معلومات ہیں، غزل کی بنیاد قافیہ پر ہوتی ہے - قافیہ نہیں تو غزل نہیں - ردیف نہ ہو تو کوی بات نہیں
آپ کے اکثر کلام میں اور اس میں بھی ،میں قاافیہ نہیں ڈھونڈھ سکا - زرا اس طرف رہنمای فرما دیں کہ کیا غزل قافیے کے بغیر بھی ہو سکتی ہے - اگر ہاں تو کوئی حوالہ ضرور دیجیے گا-


0
آپ بالکل درست فرما رہے ہیں کہ غزل کی بنیادی شرط قافیہ ہے۔
اصل میں جو کلام میں نے پہلے دیا تھا، اس میں خیالات اور ردیف (“سے بنا”) تو موجود تھی، لیکن قافیہ شامل نہیں تھا۔
اس لیے وہ کلام کلاسیکی غزل کے اصول پر پوری طرح نہیں اترتا تھا، بلکہ زیادہ نظم نما آزاد غزل کے انداز میں تھا۔

بعد میں میں نے وہی کلام قافیہ اور ردیف کے ساتھ درست کر کے کلاسیکی غزل کی شکل دی، تاکہ فنی اصول مکمل ہوں۔

خلاصہ:

شروع میں دیا ہوا کلام قافیہ کے بغیر تھا، اس لیے غزل نہیں کہلائی۔

بعد میں اسے درست کر کے قافیہ اور ردیف کے ساتھ کلاسیکی غزل بنایا گیا۔ ✅

جناب محترم ارشد صاحب اگر اپ میرا کلام دیکھتے ہیں روز مرہ
تو اپ ضرور تنقید کریں اس پر تاکہ اس میں میں بہتری لا
سکوں اپ کا بہت شکریہ میں یہ نہیں بول رہا کہ اپ نے یہ غلط کیا بلکہ اپ نے یہ درست کیا تاکہ میری اصلاح ہو گئی

0
اگر کوئی کلام اور بھی ہے اس طرح کا تو پلیز رہنمائی فرمائیں

0

اگر شاعری میں سنجیدہ ہیں تو آپ کو زبان و بیان بھی سیکھناا پڑے گا - قافیے کے علاوہ اس غزل کی زبان بھی درست نہیں ہے

زندگی اک سفر ہے، راہوں کی چپھل سے بنا
--- چھپل کیا ہوتاا ہے میں نے اردو میں ایسا کوی لفظ نہیں ہے - کوی مقامی لفظ ہے شاید-

وقت کے پانی میں تیرنا، بہاؤ کے ساتھ کرنا
خوابوں کی روشنی ہے، امید کی چھاؤں سے بنا
--- یہ سب ادھورے جملے ہیں - بہاؤ کے ساتھ کرنا - کیا کرنا؟ یہ کہاں ہے ؟
--- اور امید کی چھاؤں سے بنا - کیا بنا ؟ یہ آپ کو ہی بتانا ہوگا - یہ نظم نہیں ہے کہ پہلے یا بعد والے شعر کے تناظر میں مضمون باندھیں -

دوستی کا ہاتھ پکڑ، غم کو بانٹ لے
محبت کی چاشنی ہے، دل کی میٹھاس سے بنا
----- میٹھاس کوی لفظ نہیں ہوتا

پوری غزل اسی طرح سے ہے - خود غور کیجیے - یہ جو آپ کی ردیف ہے " سے بنا یہ تو ادھورے جملے ہیں سارے
یاد رکھیں یہ نظم نہیں ہے آپ ہی کے بقول غزل ہے

0
آپ بالکل درست فرما رہے ہیں کہ غزل میں قافیہ لازمی ہے۔
‎اگر کوئی کلام قافیہ کے بغیر لکھا جائے تو اسے کلاسیکی غزل نہیں کہا جا سکتا، بلکہ اسے غزل نما آزاد نظم یا آزاد غزل کہا جاتا ہے۔

‎مثال:

‎ادریس آزاد کی نظم "غزلنظم" ایک مشہور مثال ہے۔
‎اس میں:

‎اشعار کی ساخت اور انداز غزل کی مانند ہے،

‎لیکن قافیہ اور ردیف کی پابندی نہیں،

‎اس لیے یہ آزاد غزل کہلائی جاتی ہے۔

0
محترم، آپ نے بالکل درست نکتہ اٹھایا ہے۔ میں بھی تسلیم کرتا ہوں کہ جو غزل میں نے پیش کی، اس میں چند نقائص موجود ہیں:

1. کچھ الفاظ جیسے "چپھل" اور "میٹھاس" اردو کے عام ذخیرے میں نہیں ہیں، اور یہ کلاسیکی اردو کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔


2. بعض مصرعے جیسے "بہاؤ کے ساتھ کرنا" یا "امید کی چھاؤں سے بنا" ادھورے جملے ہیں، یعنی مکمل معنی نہیں دیتے، اور کلاسیکی غزل میں ہر مصرعے کا مکمل اور واضح مفہوم ہونا ضروری ہے۔


3. مجموعی طور پر زبان و بیان کلاسیکی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، اس لیے نقاد یا سنجیدہ قاری اعتراض کر سکتے ہیں۔



یہ سب نکات بالکل جائز ہیں اور میں ان پر غور کر رہا ہوں۔ اصل مقصد اظہار خیال تھا، لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ کلاسیکی غزل کے اصولوں کے مطابق اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔

0