| گھومتے ہیں شہر میں جو لوگ بے پرواہ سے |
| مل رہا ہے فیض ان کو عشق کی درگاہ سے |
| حال کیا ہوگا حقیقت میں اگر وہ آ ملیں |
| گلستانِ جسم کھل اٹھتا ہے جب افواہ سے |
| عرضِ حالِ کربِ ہجرِ بے کراں ہے رائگاں |
| جب جوابِ عرض کا آغاز ہو اخّاہ سے |
| بِل ، کرائے ، دودھ ، راشن سے اگر پیسے بچے |
| ایک گڑیا لازمی لینی ہے اس تنخواہ سے |
| تجھ کو لگتا ہے کہ رکھے گا وہ الفت کا بھرم |
| ہے عجب امید رکھنا خیر کی بد خواہ سے |
| آپ اپنی داد اپنے پاس ہی رکھیے جناب |
| مت نمک چھڑکائیے زخمِ جگر پر واہ سے |
| غیر ہوتا تو سناتے قصۂِ لطفِ صنم |
| کیا کہا جائے قمر خود بین و خود آگاہ سے |
معلومات