شہرِ ہستی کو بہ کو خاموشی ہے
سن لو میری گفتگو خاموشی ہے
/
درمیاں جو شور ہے بے کار ہے
جب میں خاموشی ہوں، تو خاموشی ہے
/
اب زباں کی کچھ ضرورت ہی نہیں
اب تو پیارے رو بہ رو خاموشی ہے
/
اِس وجودی گیت سُر سنگیت کی
گیت کارو آبرو خاموشی ہے
/
چار سو غزلیں سنائی دے رہیں
اپنے گھر میں چار سو خاموشی ہے
/
کھلتے ہیں جس میں گلاب آنند کے
ایسے سجدے کا وضو خاموشی ہے
/
شور و ہنگانے کی اس دنیا میں دور
کتنے زخموں کا رفو خاموشی ہے
/
چیخنا چلانا تو کچھ بھی نہیں
یارا اصلی ہاؤ ہو خاموشی ہے
/
رشتوں کا رکھتی ہے تازہ گفتگو
جب کہ رشتوں کا لہو خاموشی ہے

0
53