| کوئی بھی مہرباں مرا تیرے سوا نہیں |
| قدرِ قلیل بن ترے ملتی وفا نہیں |
| فریاد کیوں کروں میں رقیبوں سے برملا |
| تو ہے جو میرے ساتھ تو خدشہ ذرا نہیں |
| کیسے وہ جان پائے گا الفت کی منزلیں |
| اس سر بلندِ عشق میں جو مبتلا نہیں |
| لطفِ کرم کی فکر سے یوں سر ہوا نگوں |
| تب سے اصول عشق ہوں یہ سر اٹھا نہیں |
| اے منزل مراد کے سافر بتا مجھے |
| آگے کے کارواں کا مجھے کچھ پتا نہیں |
| تب تک ملے نہ خسروی بزمِ جہان کی |
| جب تک وفا شعاری کا تجھ کو پتا نہیں |
| لطفِ حروف لذتیں حسنِ بیان کی |
| ارشد ترے سنانے میں کوئی ادا نہیں |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات