| پلکوں پہ تارے سجاؤ دسمبر کی رات ہے |
| جی بھر کے خوشیاں مناؤ دسمبر کی رات ہے |
| کتنی شدید سردی ہے، پھر آج جانِ جاں |
| گردش میں جام لاؤ ، دسمبر کی رات ہے |
| جذبات پھر مچل رہے ہیں بھیگی رات میں |
| اب تو قریب آؤ دسمبر کی رات ہے |
| محفل میں اب چھلک رہے ہیں جام چار سو |
| پیرِ مُغاں بلاؤ ، دسمبر کی رات ہے |
| محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ ٹھہر گیا |
| رازوں کو اب بتاؤ، دسمبر کی رات ہے |
| خوشبو سی گھل رہی ہے یہ ٹھنڈی ہواؤں میں |
| شعلوں کو تیز جلاؤ دسمبر کی رات ہے |
| اب تک وہی کہانی، وہی ہجر کی کسک |
| پھر خواب اب دکھاؤ، دسمبر کی رات ہے |
معلومات