| کسی کی یاد جو میری پُکار سے باہر |
| وُہی اک سایہ جو اپنے حصار سے باہر |
| اُسی کے نام پہ جینے کی کَون سی ضد ہے |
| جو میری دسترس، اور اِختیار سے باہر |
| میں اُس کی دُھن میں کسی اور سمت چل دی تھی |
| وہ اپنے گھر کے کسی شہریار سے باہر |
| یہ کون ہے جو اُسے دیکھتی ہے میری طرح |
| مگر وہ چہرہ ہے ہر اِک گُمان سے باہر |
| یہ رُوح کی ہے تمنّا، کوئی حقیقت نہیں |
| وہ میری پیاس ہے، پر آبشار سے باہر |
| اُسی کا نام مِرے دل میں یوں دھَڑکتا ہے |
| کہ جیسے موج کوئی کِنارے سے باہر |
| بِکھر نہ جائے وہ تصویر، میرے ہاتھوں سے |
| ندیم یہ درد ہے ہر ایک تار سے باہر |
معلومات