| ماں کے حضور |
| ابھی وقت کا تیز پہیہ |
| ہے گردش میں اور آسماں پر رواں |
| چاند، سورج، ستارے |
| کسی ان کہی ان سنی منزلِ بے نشاں کی طرف گامزن ہیں |
| ابھی میری سوچوں میں تابندگی ہے |
| مرے ذہن کی کہکشاں میں دمکتے ہیں دو مہرباں چہرے |
| جیسے کہیں دور دوٹمٹماتے ستارے،۔ |
| مری سر زمین ِ وطن، اے مری مہرباں ماں!۔ |
| تو کیسے فراموش کر دے گی ان کو؟ |
| وہ بیٹے ترے تھے |
| ترا ایک بیٹا تھا شاعر |
| کہ جس کے تخیل نے اور فکر نے |
| تیرے بیٹوں کو باور کرایا |
| کہ گر تم |
| شرافت سے عزت سے چاہو کہ زندہ رہو، تو!۔ |
| سنو پھر!۔ |
| تمہیں اپنی ماں کو جنم دینا ہو گا! |
| تمہیں ایشیا کے پہاڑوں میں |
| صحراؤں میں، وادیوں میں |
| کئی امتحاں دے کے |
| اپنے لئے ایک رستے کا کرنا پڑے گا تعیّن!۔ |
| تمہیں تیرگی کے جہاں سے نکلنے کو |
| اک چاند تارا بنانا پڑے گا!۔ |
| مگر تیرا چاند اور تارا |
| ابھی شرقِ چرخِ دواں پر |
| ہویدا ہوا بھی نہ تھا جب |
| ترے خواب بُنتی ہوئی آنکھ کو |
| موت نے موند ڈالا!۔ |
| فرشتوں نے اس کو بتایا تو ہو گا |
| کہ اے مردِ مومن!۔ |
| ترا خواب پورا ہوا چاہتا ہے |
| ترا دوسرا ناتواں جسم بیٹا |
| جو میداں میں اترا، تو کوہِ گراں |
| اس کے عزمِ مصمم سے |
| کٹ کٹ کے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے |
| زمانے نے دیکھے |
| مری ماں! یہ تو نے بھی دیکھا تو ہو گا!۔ |
| مگر، کاش!۔ |
| ایسا حقیقت میں ہوتا |
| کہ جو خطۂ ارض ہم کو ملا تھا |
| اسے خطۂ پاک میں ڈھال سکتے |
| ابھی ڈھائی عشرے بھی گزرے نہ تھے جب |
| ترے بیٹے آپس میں لڑتے ہوئے |
| اک تماشا بنے،۔ |
| اور دنیا نے دیکھا! |
| ترا ایک بازو، ترے اپنے بیٹوں نے |
| خود کاٹ پھینکا |
| مری ماں! وہ سپنے کہاں رہ گئے ہیں؟ |
| وہ عزت، شرافت، محبت کی لوری |
| جو تو گا رہی تھی |
| کہاں کھو گئی ہے |
| یہ محسوس ہوتا ہے اب تو کہ جیسے |
| یہ چالیس سال |
| ایک سکتے کے عالم میں ہی کٹ گئے ہیں |
| مگر ماں!۔ |
| مجھے تجھ سے اک بات کہنی ہے |
| اپنے دھواں ہوتے اشکوں کو پونچھ |
| اور یہ بات سن لے! |
| ترے نرم سینے کی مٹی کی خوشبو |
| مجھ زندہ رہنے کے |
| زریں اصولوں سے |
| بیگانہ ہونے نہ دے گی، |
| مری ماں!۔ |
| مری ماں، میں عزمِ جواں لے کے اٹھوں گا |
| بابا کے سب خواب پورے کروں گا |
| ہم اس دور کی یاد تازہ کریں گے |
| امیر العرب جب سر راہ |
| بیری کی چھاؤں میں سوتا تھا |
| اور بے خطر تھا |
| جواں، خوبرو، |
| زیوروں سے لدی ایک لڑکی کو |
| مکے سے لے کر |
| حضر موت تک کے |
| اکیلے سفر میں بھی |
| عزت کے، زیور کے |
| اور جاں کے جانے کا |
| کچھ ڈر نہیں تھا |
| مری پیاری ماں!۔ |
| کیا کبھی ایسا ہو بھی سکے گا؟ |
| مری ماں، دعا کر!۔ |
| محمد یعقوب آسیؔ ۔ ۱۰؍ اگست ۱۹۸۶ء |
معلومات