| بھٹکتا پھر رہا ہوں دل میں تیری آرزو لے کر |
| شبِ دیجور میں تیری کرن کی گفتگو لے کر |
| ترے ناخونِ انور کی تجلی کیا ہوئی نازل |
| اٹھائے پھرتے ہیں شمس و قمر وہ چار سو لے کر |
| بیابانِ عرب آنکھوں میں جب پھرتا ہو بن دیکھے |
| گلستانِ عجم میں کیا کروں پھر رنگ و بو لے کر |
| تمہارے آستاں کے چار ٹکڑوں پر قناعت ہے |
| بھری دنیا لئے بیٹھے ہیں تیرے روبرو لے کر |
| سناتی ہے ہزاروں داستانیں میری خاموشی |
| ادب ملحوظ خاطر ہے شکستِ آبرو لے کر |
| مداوا ہو تمہی دل کا کوئی دوجا نہ ہم جانیں |
| نہ محشر میں تماشا ہو گناہوں کی نمو لے کر |
| کوئی قطرہ کوئی چھینٹا ترے دستِ مقدس کا |
| اگر جامی کو مل جائے تو مر جائے وضو لے کر |
معلومات