حق پہ کوئی بھی نثار اب نہیں ہوتا
خود سے وفا کا قرار اب نہیں ہوتا
بات کسی کی کبھی جو سہ نہ سکا تھا
وقت سے وہ در کنار اب نہیں ہوتا
جسم سے ہی بس لگاؤ، حسن سے رغبت
روح سے دیدارِ یار اب نہیں ہوتا
جذبہِ انسانیت جو دل کو جِلا دے
ویسا سلگتا شرار اب نہیں ہوتا
ایک نظر میں بسے ہیں چہرے بہت سے
ایک نظر ایک پیار اب نہیں ہوتا
غیروں کے غم کا جہاں میں کون ہے پرساں
دل کسی کا اشکبار اب نہیں ہوتا
پیشِ نظر فائدہ سے واسطہ سب کا
شخص کوئی با وقار اب نہیں ہوتا
جن کو ملی مفلسوں سے آج بلندی
وہ انہیں سے ہم کنار اب نہیں ہوتا
رحم دلی اپنوں کی ہو جائے پرائی
رشتہ کوئی غم گسار اب نہیں ہوتا
راستے میں مل گئے اگر وہ اچانک
تذکرہِ حال زار اب نہیں ہوتا
سارے گلستان پر ہے قبضہِ صیاد
شکوہِ باغ و بہار اب نہیں ہوتا

0
5