کہیں خاموش جنگل کے کسی تاریک گوشے میں
صدائے دردمند ہے جو مسلسل گونجا کرتی ہے
کبھی وہ دامن کوہسار سے جاکر لپٹتی ہے
کبھی وہ آسمان بیکراں سے جا چمٹتی ہے
عجب تاریک صحراؤں کے دامان پریشاں میں
شجر مایوس اور بیزار صف بستہ کھڑے ہیں
خوشی کی رہگزر ماتم کدہ کی راہ لگتی ہے
سبھی خاموش گم سم اور لب بستہ کھڑے ہیں
تبھی سنسان وادی میں کوئ پھرتا ہوا آیا
وہ یعنی کوئی جُگنو دور سے اُڑتا ہوا آیا
لگا کچھ روشنی کا بن جگا امید کا دامن
وہ جلتا بجھتا جاتا تھا سفر طے کرتا جاتا تھا
مگر کچھ دیر چلنے سے مسلسل جلتے رہنے سے
چمک دھندلا گئی اُسکی للک کمہلا گئی اُسکی
اکیلا تھا وہ کیا کرتا کہاں جاتا کدھر پھرتا
فضا کے ایک اک ذرے میں ظلمت کا بسیرا تھا
کسے وہ درگذر کرتا وہ کس میں نورِ حق بھرتا
لئے ایک بوجھ سا دل پر قدم آگے بڑھاتا تھا
روِش خمدار تھی اتنی سنبھلتا ڈگمگاتا تھا
کہ مستغرق خیال کوہ سینا لگ رہا تھا وہ
ہاں شیریں کے انگوٹھی کا نگینہ لگ رہا تھا وہ
بڑی لمبی مسافت سخت گھڑیاں کرب اور دقّت
وہ سب کچھ طے کیا اس نے جو تھا پُرپیچ پر رقّت
بلآخر اپنی دھن میں گم وہ اِک کیڑے سے ٹکرایا
جو اسکو غور سے دیکھا تو اپنے ہوش میں آیا
مقابل کوئی دوجا تو نہیں ،ہاں اسکا پرتو تھا
جنون تیزگامی میں وہ تھا ٹکڑا گیا اس سے
تھا پانی یا کہ آئینہ وہ دھوکہ کھا گیا جس سے
بڑی سرعت سے لہروں نے تبھی اس پر کمند ڈالی
قضا کی ضرب تھی پہلی ہوا پھر ذہن و دل خالی
اُسی ساعت ہوئے افشائے رازِ پر نہاں اس پر
محبت کے عقیدت کے عبادت اور خدمت کے
نگاہیں وا ہوئیں اُسکی پھر اس نے دور تک دیکھا
کہ جلوہ گاہ تاباں تھی ہاں کوہ طور تک دیکھا
تجلی کا تھا اِک پربت مقیم منتہائے ذات
سوائے اس پتنگے کے نظر آتی تھی ہے سو رات
اِدھر زنجیرِ کے حلقے بھی رفتہ رفتہ بڑھتے تھے
تصور کے تخیّل کے ہر اِک گل جھڑ کے گرتے تھے
وہ ڈوبا حلقۂ غرقاب نوری مثل مینا تھا
تھے روشن بلبلے پھوٹے یا بکھرا آبگینہ تھا
اندھیری رات کی تہداریوں میں چاند اترا تھا
مچی دریا میں ہلچل تھی گہر نایاب اترا تھا
اندھیرا چھٹ کے روشن زِندگی سے دور بکھرا تھا
یہ کوہِ طور ڈوبا تو ہزاروں طور ابھرا تھا
اندھیروں کو یقیں آیا سحؔر نے ساتھ دہرایا
جو علامؔہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں ملکر گُل گلزار ہوتا ہے

193