بن تو گئی ہےزندگی اشباہِ نیم شب
لیکن ہوئی نہ پوری ابھی چاہِ نیم شب
ہے رات گریہ گاہ تری اشک اشک رو
کیوں گھٹ کے مررہا ہےمرے ماہِ نیم شب
اک دو پلک کی نیند کو آنکھیں ترس گئیں
شاید کہ لگ گئی ہے اِنہیں آہِ نیم شب
حالانکہ یہ سفر تو بہت دیر کا نہیں
لیکن مجال ہے کہ کٹے راہِ نیم شب
دامن چھڑا کے مجھ سے گزر نہ جائے کہیں
میں روک کر کھڑا ہوں گزرگاہِ نیم شب
دل ہے یا کوئی ہجر زدہ دشتِ ریگزار
آنکھیں ہیں یا کہ درد کی درگاہِ نیم شب
چل تو پڑا ہوں ساتھ مگر یہ خبر نہیں
لے جائے گی کہاں پہ یہ گمراہِ نیم شب
پہلے پہل تو جاگتے ہیں اشتیاق سے
کرتا ہے کون بعد میں پرواہِ نیم شب
صدیوں پہ پھیلی لمبی مسافت ہے سامنے
اک میں ہوں اور ایک ہے شاہراہِ نیم شب

0
18