| دِید کو تیری سراپا آنکھ ہوئے ہیں |
| کیا چلے کندن تھے بننے، راکھ ہوئے ہیں |
| کرتے نُمائندگی ہم بے زُباں سب کی |
| نوکِ زُباں پر اُٹھائے ساکھ ہوئے ہیں |
| چھوڑتے کیوں ہم نہیں ہیں بے رُخی پر بھی؟ |
| کوئی نہیں تم سا ہم سے لاکھ ہوئے ہیں |
| مِؔہر یہاں شب فِروزی کرتے ہو کیسے |
| زیرِ پا رستے بھی سنگلاخ ہوئے ہیں |
| -----------***---------- |
معلومات