| شمعِ دل اُنکی، محفل میں ہے |
| جیسے جاں نیم، بسمل میں ہے |
| غُل مچاتا ہے جیسے سکوت |
| اب تلک غصّہ بادل میں ہے |
| سُنتے ہیں سوچتا ہے ہمیں |
| سُنتے ہیں یار مُشکل میں ہے |
| پھیرنا شرم، سے پلکوں کا |
| ناوکِ مِژگاں، وہ دل میں ہے |
| ظُلمتِ یاس، اتنی نہیں |
| تیرگی جتنی، کاکُل میں ہے |
| عشق ہے آگ، سے کھیلنا |
| مِؔہر لو آج، مَقتل میں ہے! |
معلومات