خیالِ یار میں مجھ کو یونہی مدہوش رہنے دو |
نہ پوچھو رات کا قصہ، مجھے خاموش رہنے دو |
بنا جس کے کہے جس کی میں سب باتیں سمجھتا ہوں |
مجھے اس کے لیے یونہی ہمہ تن گوش رہنے دو |
سُنایا وصل کا قصہ ، تو میرے یار یوں بولے |
کہاں تم اور کہاں اس کی حسیں آغوش، رہنے دو |
مجھے معلوم ہے اس نے مرا ہونا نہیں لیکن |
مری امید مت توڑو ، مجھے پر جوش رہنے دو |
محبت جرم ہے میرا ، مجھے اقرار ہے اس کا |
وفا الزام ہے تو پھر مرے سر دوش رہنے دو |
غمِ دنیا سے گھبرا کر جو چشمِ یار کے اندر |
چھپا بیٹھا ہے مدت سے، اسے روپوش رہنے دو |
کتابِ عشق سے ہم پر یہی عُقدہ کھلا آسی |
پیے جو جام الفت کا اسے مے نوش رہنے دو |
معلومات