رازِ وحدت اُسی نے پایا ہے
جس نے خُود کو خُودی مٹایا ہے
جب بھی دیکھا اُنہی کو دیکھا ہے
ذرّے ذرّے میں وہ سمایا ہے
کُنْ سے پہلے تھے اُن کے دامن میں
كُنْتُ كَنْزاً ہمیں سنایا ہے
نَحْنُ اَقْرَبْ وَ فِیْ اَنْفُسِکُمْ
اُس نے خُود کو کہاں چھپایا ہے
چار سُو دیکھتا ہوں وَجْہُ اللّٰہ
جب سے دل میں اُنہیں بٹھایا ہے
اُن کی صورت پہ ایک صورت ہے
شکلِ خواجہ میں کوئی آیا ہے
اُن کے دم سے ہی زندگانی ہے
اُن کو دیکھا تو سانس آیا ہے
ساقیا میکدے میں رِندوں نے
جامِ وحدت ہمیں پلایا ہے
شوقِ دیدِ جمال ہے سب کو
کون ہم سا جگر بھی لایا ہے
خُود ہی خُود کا جمال دیکھیں گے
رُخ سے پردہ اگر اٹھایا ہے
کیوں نہ بخشیں گے قُرب کے لمحے
ہم کو ہاتھوں سے خُود بنایا ہے
بے نیازی کا کیا ہی عالم ہے
عشق کو درد سے ملایا ہے
پوچھ بیٹھے جو اُن کی اُلفت کا
پیارِ خلقِ خُدا بتایا ہے
شاد رکھنا تُو میرے حافظ کو
تیرے در پر جو ہم کو لایا ہے

0
4
34
جناب
جس نے خُود کو خُودی مٹایا ہے

جملہ تو ہونا چاہیے تھا "جس نے خُود کی خُودی مٹائی ہے" یہ "جس نے خُود کو خُودی مٹایا ہے" کا کیا مطلب ہوا؟

0
جی یہاں خودی کا مطلب "خود ہی" کا ہے

0
جناب پھر اسے" خود ہی" ہی لکھیں - خودی اور خود ہی دد بالکل الگ الگ الفاظ ہیں آپ انھیں ایک ہی مفہوم میں نہیں لے سکتے -

جی بہتر
رہنمائی کا شکریہ

0