| بال و پر رکھتے نہیں عزمِ سفر رکھتے ہیں |
| شوقِ پرواز بہ اندازِ دگر رکھتے ہیں |
| ہاتھ اٹھانے کی کوئی شرط دعا میں کب ہے |
| تیرے عشاق نگاہوں میں اثر رکھتے ہیں |
| یہ الگ بات کہ آتے ہیں نظر ذرّہ صفت |
| ورنہ قدموں میں تو وہ شمس و قمر رکھتے ہیں |
| دھوپ ہے ریت ہے اک اور سفر ہے جاری |
| سایہ رکھتے ہیں نہ وہ لوگ شجر رکھتے ہیں |
| اُس طرف والے نظر آتے ہیں لرزیدہ مگر |
| اِس طرف والے کفِ دست پہ سر رکھتے ہیں |
| پُرسکوں ہے جو فضا اس پہ نہ جانا شاعر |
| آشیاں کتنے ابھی برق و شرر رکھتے ہیں |
معلومات