| سجدہ کروں تو عرش کا منظر دکھائی دے |
| وقتِ دعا حضور کا منبر دکھائی دے |
| اک بار شہر یار ارم خواب میں دکھا |
| اور پھر یہ چاہتا ہوں کہ اکثر دکھائی دے |
| تیری نظر میں ہیرے جواہر ہیں قیمتی |
| مجھ کو تو کل جہان ہی کنکر دکھائی دے |
| تابش کی چکا چوندی سے آنکھیں نہ بند ہوں |
| مرقد میں جب وہ آئے تو کھل کر دکھائی دے |
| گر چہ قضا کا جام بڑا تلخ ہی سہی |
| پی لوں گا ہنس کے جو مجھے سرور دکھائی دے |
| لاحول پڑھ کے دیکھ تو اصنام کی طرف |
| شاید کہ تیرا بت تجھے پتھر دکھائی دے |
| تم کو ابھی تلک نہ دکھائی دیا خدا |
| وہ تو ہر اک وجود سے اظہر دکھائی دے |
| رویت مرے حضور کی دل پر ہے منحصر |
| آنکھوں سے کب وہ نور کا پیکر دکھائی دے |
| اک آئینہ ہے تیرے بدن کا مجسمہ |
| ناری کو نار نور کو گوہر دکھائی دے |
| یارب مری نگاہ کو اتنا شعور دے |
| دیکھوں جہاں بھی تیرا ہی محضر دکھائی دے |
| یارب مری نگاہ کو اتنا شعور دے |
| دیکھوں جہاں بھی تیرا ہی محضر دکھائی دے |
| آنکھوں پہ میری کھول دے ایسے مرے عیوب |
| اپنی ہی ذات خاک برابر دکھائی دے |
| جامیؔ خطائیں ساری عمر کی اٹھا کے لا |
| محشر میں دیکھ شافع و داور دکھائی دے |
معلومات