ٹوٹے مرے سارے عہد و پیماں ترے چلتے
کہہ پاؤں نہ میں اس کو اب تو ہاں ترے چلتے
تقدیر ابھی بھی ہے منزل سے بہت ہی دور
تدبیر کے پاؤں تو ہیں کوشاں ترے چلتے
آواز اٹھے گی اور تو ظلم کرے جتنا
سینے میں اٹھے گا بھی اور طوفاں ترے چلتے
اے دولتِ دنیا کیا معلوم نہیں تجھ کو
حیوان بنے کتنے آج انساں ترے چلتے
وحشت زدہ ہیں شہری سہمے ہوئے دیہاتی
شمشان ہوا روشن گھر ویراں ترے چلتے
بے شرم تو اس مہنگائی کا ہے سبب بے شک
بنیاد ترقی کی ہے لرزاں ترے چلتے
یارانِ سیاست تو بیدار ہوگا کب تک
اب جاگ وطن کا کب تک نقصاں ترے چلتے

0
65