| ہمیں اک بار پھر آقا بُلا لو نا مدینے میں |
| کرم گر آپ فرمائیں وہ روزوں کے مہینے میں |
| گدا در پر جو آ جائے عنایت یہ بڑی ہوگی |
| سلیقہ تو نہیں کوئی گدائی کے قرینے میں |
| سفر یوں تو ہوئے کتنے درِ مُر شِد کی چوکھٹ کے |
| سواری کاش سب کی ہو مدینے کے سفینے میں |
| تمنائیں ہزاروں ہیں بیاں کیسے کریں سب کو |
| خبر رکھتے ہیں جو کچھ ہے چھُپا دل کے دفینے میں |
| نظر جب سبز گنبد پر پڑے تو دل پگھل جائے |
| حرارت عشق کی ایسی جواہر کے نگینے میں |
| چَھٹے غم کی گھَٹا کالی یہاں رحمت کی بارش ہو |
| مرادیں من کی ہوں پوری ملے یاں لطف جینے میں |
| پلا دو جام الفت کا گناہوں سے خُلاصی ہو |
| شِفا پنہاں ہو زیرک کی پلانے اور پینے میں |
معلومات