| بات سمجھے نہ مری اتنے ذہیں ہو پھر بھی |
| بولتے کیوں نہیں اے دوست ، یہیں ہو پھر بھی |
| چاہنے والوں کو انکار نہیں کرتے ہیں |
| ہاں مجھے علم ہے لاکھوں سے حسیں ہو پھر بھی |
| دیکھ لیتا ہوں برستے ہوئے آنسو پسِ چشم |
| سامنے میرے کوئی خندہ جبیں ہو پھر بھی |
| وحشتِ شوق نہیں دیکھنے دیتی کوئی شے |
| شبِ وعدہ کوئی محبوب قریں ہو پھر بھی |
| وقت ہو جائے تو ہو جاتی ہیں آنکھیں خود بند |
| مہوشِ خواب اگر پہلو نشیں ہو پھر بھی |
| میں ترا بوسہ لیے در سے پلٹنے کا نہیں |
| آسماں میرے لیے آج زمیں ہو پھر بھی |
| دھیان رکھتا ہوں تمہارا کسی بچے کی طرح |
| تم مری پہلی محبت بھی نہیں ہو پھر بھی |
| ڈگمگائیں نہ کسی لمحے تمنا کے قدم |
| رہ بھٹکنے کا مسافر کو یقیں ہو پھر بھی |
| کہکشاں لفظوں کی موجود ہے پابوسی کو |
| مجھے حیرت ہے قمرؔ تم پہ ، حزیں ہو پھر بھی |
| قمرآسیؔ |
معلومات