| ہزاروں اصوات نوحہ خواں ہیں کہ اک زباں پر ہے نزع طاری |
| حروف و الفاظ سر بہ زانو |
| خموش ہے اِک جہانِ معنی |
| کہ اُس کے باسی |
| تلاشِ گندم میں اپنے شہروں کی فاقہ کش عافیت کو تج کر |
| نئے جہانوں کے اجنبی راستوں پہ آنکھوں میں پیاس لے کر |
| بھٹک رہے ہیں |
| نیان کی روشنی میں لِکّھی نئی زبانیں چمک رہی ہیں |
| جلا وطن لفظ اور معانی کو شور کرتی وسیع سڑکیں نگل رہی ہیں |
| خموش ہے اِک جہانِ معنی |
| کہ اُس کے باسی |
| نئی زبانوں کے شور و غل سے وطن میں بھی اجنبی ہوئے ہیں |
| وہ اپنے شہرِ زباں میں بھی بے زباں ہوے ہیں |
| جو بات کرتے تھے، اب وہ شہر و دیار و در ہیں ساکت |
| جو محرمِ مدعا تھے وہ دشت و کوہ و صحرا سدا کے گونگے بنے ہوئے ہی |
| جو حرف کی آگ سے پگھلتے تھے وہ شجر اور حجر ہیں ساکت |
| پرانی آبادیوں کے رستے شکستہ کھنڈروں میں کھو گئے ہیں |
| وہ محل و ایوان و طاق و گنبد جہاں سے اصوات کا سمندر اُبل رہا تھا |
| اُجڑ چکے ہیں |
| وہ شاہراہیں وہ تنگ گلیاں وہ سیڑھیاں چوکھٹیں دریچے |
| حرم سرائیں، غلام گردش، وسیع دالان، ہنستے آنگن |
| گھروں کے کونے لبوں کے گوشے |
| جو لفظ کو دے رہے تھے معنیٰ |
| جو صوت کو دے رہے تھے نغمہ |
| خموش ویرانیوں کے مرقد میں اپنی دنیا کو دفن کر کے |
| سکوت کی چشمِ حسرت آگیں سے اپنی میّت پہ رو رہے ہیں |
| ہزاروں اصوات نوحہ خواں ہیں کہ اُن کا پُرساں نہیں ہے کوئی |
| ہزاروں الفاظ کھوکھلے ہیں کہ اُن کے معنی تلاشِ نانِ جویں میں |
| اپنا لباس بدلے بھٹک رہے ہیں |
| زبان سے ہے شکم کا رشتہ |
| ہیں لفظ کشکولِ نان و گندم |
| نئی زبانوں کے لفظ جہدِ معاش میں بے زبان لفظوں کو روندتے ہیں |
| نئی زبانوں کی سلطنت میں کسے پڑی ہے |
| جو اپنے لفظوں کو چھوڑ کر دوسروں کے لفظوں کو دے معانی |
| کسے پڑی ہے جو فاقہ کش اور برہنہ معنی کو لفظ کے پیرہن سے ڈھانپے |
| ہمارے الفاظ مر رہے ہیں، ہم اپنی سانسوں کو گِن رہے ہیں |
| ہمارے بعد آنے والی نسلیں |
| ہمارے الفاظ اور معنیٰ |
| کی قبر کو دیکھ کر |
| اک نئی زباں کے انوکھے لفظوں میں |
| یہ کہیں گے |
| کہ آج سے چند سال پہلے یہ لفظ و معنی بھی بولتے تھے |
| صلیبِ جمہوریت پہ لفظوں کو موت آئی |
| کہیں کتابوں کے مقبروں میں ابھی تلک بے صدا معانی |
| سِسک رہے ہیں |
معلومات