| مقدر میں اگر ہوتا تُو میرا ہمسفر ہوتا |
| سفر ہوتا محبت کا مسرت سے بسر ہوتا |
| جو میرے پاس فرقت میں رفو کا اک ہنر ہوتا |
| دلِ صد چاک لے کر میں کبھی کیوں دربدر ہوتا |
| مرے دل کے نہاں خانوں سے تیرا گر گزر ہوتا |
| کبھی پھر دور تُو دلبر نہ مجھ سے عمر بھر ہوتا |
| نہ مجنوں عشقِ لیلی میں کبھی صحرا بدر ہوتا |
| وصالِ عاشقاں ہوتا جو کوئی چارہ گر ہوتا |
| ذرا سوچو اگر وہ بے وفا ہی ہمسفر ہوتا |
| بدن اسکا اِدھر ہوتا نجانے دل کدھر ہوتا |
| سمندر کے سفر پر نا خدا اپنا خضر ہوتا |
| نہ موجوں میں بھنور ہوتا نہ طوفاں کا ہی ڈر ہوتا |
| فرشتوں کی طرح آدم گنہ سے بے خبر ہوتا |
| اگر جنت کے باغوں میں نہ ممنوعہ شجر ہوتا |
| کبھی پردیس میں آکر نہ یوں میں دربدر ہوتا |
| میسر دیس میں گر روٹی کپڑا اور گھر ہوتا |
| سحآب آشفتگی میں کوئی اپنا راہبر ہوتا |
| تو یہ آوارہ قلبِ مضطرب بھی راہ پر ہوتا |
معلومات