خدا کی ذات پہ کر اکتفا سدا کے لیے |
ذرا سا حوصلہ رکھ ہاتھ اٹھا دعا کے لیے |
اسی نے تھام کے چھوڑا ہے بیچ رستے میں |
وہ شہر بھر میں جو مشہور تھا وفا کے لیے |
پکارتی ہے مسیحا کو جلتی پیشانی |
وہ ایک ہاتھ نہیں مل رہا شفا کے لیے |
اسے بتاؤ مجھے دشت راس آ گیا ہے |
جو مجھ کو چھوڑ گیا تھا یہاں سزا کے لیے |
کہاں سے لاؤں نیا دل مجھے بتائے کوئی |
کہاں سے لاؤں دوا دردِ لا دوا کے لیے |
اسی سے گھر میں مرے بددعائیں آنے لگیں |
جو کھڑکی کمرے میں بنوائی تھی ہوا کے لیے |
معلومات