| اک پری سے مجھے کوئی بیر نہیں |
| عشق کر بیٹھا ہوں میری خیر نہیں |
| خوب است ہے، حُسن یہ تِرا کہوں کیا؟ |
| مر مٹا ہوں کہ یکدم یہ پیر نہیں |
| ہاں زمیں پر کبھی میری جاں یہ نہ ہوں |
| گرد ہو گی، مجھے درد غیر نہیں |
| تم نے مانو ہرایا مجھے کہ ابھی |
| عشق سے عشق ہے کوئی ویر نہیں |
| دیکھو کاشف نے دل گروی رکھ دیا ہے |
| موت کے باغ میں کوئی سیر نہیں |
| شاعر : کاشٓف |
معلومات