یہ انساں عجب اک تماشا بنا ہے
نہ دنیا میں پورا نہ عقبیٰ رسا ہے
یہی خاک داں کا مکیں ہے جو دیکھو
یہی راز دارِ دلِ ماسوا ہے
نہ اوجِ ثریا کی اس کو خبر ہے
نہ اپنی ہی منزل کا اس کو پتا ہے
جو عقل و خرد کا دعویٰ کرے ہے
وہی زندگی میں سب سے گُمراہ ہوا ہے
یہ خاموش منظر یہ گہری فضائیں
ہر اک چیز قدرت کی محوِ ثنا ہے
مگر ایک انساں ہے غافل جہاں میں
جو اپنی ہی دھن میں مگن ہو رہا ہے
سمجھ اس حقیقت کو اے مردِ مومن
کہ تیرا مقام اب بھی عرشِ خدا ہے
یہی فکر ہے بس ندیم اب ہماری
کہ کیوں اپنا رتبہ بھلایا گیا ہے

0
3