| لیتی ہے بوسۂِ لب و عارض نیاز سے |
| جلتا ہے جی مرا تری زلفِ دراز سے |
| اے ابرِ نارسائی تُو یکبارگی برس |
| تنگ آ گیا ہوں روز کی اس تگ و تاز سے |
| پہنچا ہوں ایک جسم سے بے جسم حُسن تک |
| منزل حقیقی مل گئی راہِ مجاز سے |
| اتنا سپاٹ مت ہو کہ سمجھے کوئی چٹان |
| لہجہ کو آشنائی دے سوز و گداز سے |
| وہ وادیِ جمال ہے کچھ ایسی دل نشیں |
| ہٹتی نہیں نگاہ نشیب و فراز سے |
| تمغے سمجھ رہا ہوں محبت کے میں انہیں |
| بہتان ہیں لگے ہوئے کچھ بے جواز سے |
| ہونے لگا ہے ربط غلط فہمی کا شکار |
| گرنے لگا ہوں آس کے اڑتے جہاز سے |
| اک حد تلک ہی سوچنے کا اذن ہے یہاں |
| پردہ اٹھائے مت کوئی سر بستہ راز سے |
| برداشت کر نہ پائے گا وہ نغمۂِ فراق |
| مانوس ہو گیا جو محبت کے ساز سے |
| خوش رنگ ایک پھول ہے بے انتہا حسیں |
| خوشبو اسی کی آتی ہے ارضِ حجاز سے |
| بولا ہے بارہا اُسے سورج سے اجتناب |
| آتا نہیں ہے باز قمرؔ ساز باز سے |
| قمرآسیؔ |
معلومات