دل کا عالم جو مرا زیر زبر لگتا ہے
ان کی نظروں کا ہوا ہے یہ اثر لگتا ہے
شام فرقت کی نہیں ہوگی سحر لگتا ہے
ٹھیک ہوگا نہ یہ اب دردِ جگر لگتا ہے
آپ کولگتاہےپر لطف ہےیہ عشق کا کھیل
پوچھیے اس سے جسے تیرِ نظر لگتا ہے
پہلےتولگتانہیں سب کومحبت کا یہ روگ
اور ہوتا بھی نہیں ٹھیک اگر لگتا ہے
اتنا کیوں تنگ ہے صیّاد مرا کنجِ قفس
"پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے"
ایک طرف آپ کوہےشوق گلابوں کابھی
اورسنتےہیں کہ کانٹوں سے بھی ڈر لگتا ہے
اک تو پہلے سے قیامت ہے سراپا اس کا
جب سنورتا ہے تو وہ اور قہر لگتا ہے
کوئی شاید ہی پہنچتا ہے ضیا منزل پر
تم کو آسان محبت کا سفر لگتا ہے

0
23