| لوگ کردار سے اب زات پہ آ جاتے ہیں |
| جلد ہی اپنی وہ اوقات دکھا جاتے ہیں |
| رات کے جسم پہ چپ چاپ ستارے رکھ کر |
| ہم پہ الزام چراغوں کا لگا جاتے ہیں |
| اک سُلگتا ہوا لمحہ ہے بدن کے اندر |
| ہم اگر ہنس بھی پڑیں، راکھ اڑا جاتے ہیں |
| َ خون روتی ہے کوئی رات سرِ بامِ سکوت |
| نیزے کی نوک پہ پھر چاند سجا جاتے ہیں |
| چند لفظوں میں چھپا دیتے ہیں غم صدیوں کا |
| لفظ چنتے ہوئے بھی زخم لگا جاتے ہیں |
| اب تو لہجہ بھی دعا سا ہو تو ڈر لگتا ہے |
| مسکرا کر بھی کئی تیر چلا جاتے ہیں |
معلومات