| اب جو بچھڑے ہیں تو ملنے کا گماں باقی ہے |
| جیسے مٹ جانے کے بعد اگلا جہاں باقی ہے |
| خواہشیں مرتی نہیں شکل بدل لیتی ہیں |
| جل بجھا شعلۂ جاں کب کا، دھواں باقی ہے |
| کس کی منزل تھی کہاں، کس کو کہاں رکنا تھا |
| دید وا دید گئی، عمرِ رواں باقی ہے |
| کتنے ساون مری آنکھوں میں اتر آتے ہیں |
| سوچتا رہتاہوں کیا اور کہاں باقی ہے |
| کتنے تاریک گھروندے ہیں مگر سوچو تو |
| ایک اک ذرہ چمک سکتا ہے، جاں باقی ہے |
| ہم وہ خوش فہم کہ پھر ملنے کی امید لیے |
| سوچتے رہتے ہیں بس ایک ہی ’’ہاں‘‘ باقی ہے |
معلومات