| کسی پہ دل کا بھروسا کیا کریں گے ابھی؟ |
| جو سچے عشق کو جھوٹا کہا کریں گے ابھی؟ |
| یہ زخمِ ہجر تو ہر دن کا ہے نیا صدمہ |
| یہ زندگی ہے، سو رو کر جیا کریں گے ابھی |
| کچھ ایسے وعدے ہیں جو اس نے کر لیے ہم سے |
| جو بھول جانے میں بھی یاد آ کریں گے ابھی |
| یہ دل تو پہلے ہی مائل نہ تھا کسی جانب |
| جو اب اسیر ہوا، سو وفا کریں گے ابھی |
| ہر ایک راہ میں تنہا چلا ہوں برسوں میں |
| اسی کا نام لے کر دعا کریں گے ابھی |
| جو لوگ میرے بچھڑنے سے مطمئن ہیں بہت |
| ہمارے بعد وہ کتنا گِلا کریں گے ابھی؟ |
| یہ رسمِ عشق ہے کہ جس نے بھی جو کہا، مانا |
| سو تم جو بھی کہو گے، بجا کریں گے ابھی |
| ہمارے حال سے واقف تو کوئی نہ تھا ندیم |
| سو ہم جو حال میں ہیں، وہ سہا کریں گے ابھی؟ |
معلومات