سکونِ دل ملا ہے جب سے یار آیا
چمن میں جیسے پھر سے نو بہار آیا
نہ کوئی غم رہا ہے اب نہ کوئی رنج
ہر اک پہلو میں ہی اب تو قرار آیا
بڑی مشکل سے پایا ہے یہ وقتِ خاص
ہزاروں جستجو کے بعد یہ بار آیا
جوانی، زندگی، سب کچھ فدا کر دوں
کہ اس کے دم قدم سے اعتبار آیا
وہی اب دل نشیں ہے، وہی اب جان ہے
اُسی کے واسطے یہ انتظار آیا
نہ کوئی آہ دل سے اب نکلتی ہے
نہ کوئی اشک آنکھوں سے دو چار آیا
میں اس کو دیکھ کر جیتا ہوں اور مرتا
اسی کے واسطے ہر ایک خار آیا
زمانہ اب بدل سا گیا ہے سارا
نظر میں جب سے وہ میرا نگار آیا
محبت کی یہ منزل خوب ہے اے دل
فراق و ہجر کا ہر لمحہ زار آیا
یہی تو زندگی کا اصل ہے اے دوست
ترا ہر لمحہ اب تو خوشگوار آیا
یہ دل کی کیفیت،یہ روح عالم
ندیمؔ کو اب میسر وہ دیار آیا

0
2