| اس قدر جرم و خطا پر بھی اماں میں رکھ لیا |
| ہائے کیسا مال تھا کیسی دکاں میں رکھ لیا |
| خالقِ ارض و سما نے ذرۂ ناچیز کو |
| سب کی ٹھوکر سے اٹھا کر کہکشاں میں رکھ لیا |
| جب سے عندَ ظنَّ عبدی سن لیا محبوب سے |
| ہم نے رب کی رحمتوں کو خوش گماں میں رکھ لیا |
| اس جہانِ رنگ و بو کی ہر کمی معلوم تھی |
| سو خدا نے جانِ رحمت کو جہاں میں رکھ لیا |
| ورنہ وہ اور خاکدانِ گیتی کی ویرانیاں |
| بس ہمارے سر کو اس کے سائباں میں رکھ لیا |
| ہم بھی جانے کس کے کس کے در کی مٹّی چھانتے |
| شکر ہے رحمن کا اس آستاں میں رکھ لیا |
| اس قدر عزت خدا نے دی مرے محبوب کو |
| اس مکاں کا نور تھا وہ لامکاں میں رکھ لیا |
| مل رہا تھا نور جامی صاحبِ لولاک سے |
| میرے مرشد نے وہ لے کر میری جاں میں رکھ لیا |
معلومات