| عجب خوش فہمی میں ہم جی رہے ہیں |
| ستم کو لطفِ کرم جی رہے ہیں |
| نہیں خبر کہ یہ دنیا ہے ایک دھوکا |
| فریبِ خواب میں ہر دم بہ دم جی رہے ہیں |
| سمجھ لیا ہے جسے یار اپنا ہم نے |
| وہ دشمنی میں بہت محترم جی رہے ہیں |
| یہ انتظارِ مسلسل، یہ آسِ باطل |
| اسی امید میں اپنی قسم جی رہے ہیں |
| یہ سادہ لوحی ہماری ہمیں نے مار ڈالا |
| کہ زہرِ ہجر کو سمجھ کر مرہم جی رہے ہیں |
| خرد سے کام نہ لینا، یہی تو نادانی |
| اسی زیاں، اسی سودے میں، کم جی رہے ہیں |
| نہ کوئی فکرِ جہاں ہے، نہ کوئی خوفِ فنا |
| عجب جنوں، عجب عالم، عجب ستم جی رہے ہیں |
| جو زندگی کا بھروسہ کیے ہوئے ہیں یہاں |
| وہ اپنی بھول میں، اپنا الم جی رہے ہیں |
| ندیمؔ، یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی اپنا ہے |
| کہ دل کے ساتھ بہت سے الم جی رہے ہیں |
معلومات