عجب خوش فہمی میں ہم جی رہے ہیں
ستم کو لطفِ کرم جی رہے ہیں
نہیں خبر کہ یہ دنیا ہے ایک دھوکا
فریبِ خواب میں ہر دم بہ دم جی رہے ہیں
سمجھ لیا ہے جسے یار اپنا ہم نے
وہ دشمنی میں بہت محترم جی رہے ہیں
یہ انتظارِ مسلسل، یہ آسِ باطل
اسی امید میں اپنی قسم جی رہے ہیں
یہ سادہ لوحی ہماری ہمیں نے مار ڈالا
کہ زہرِ ہجر کو سمجھ کر مرہم جی رہے ہیں
خرد سے کام نہ لینا، یہی تو نادانی
اسی زیاں، اسی سودے میں، کم جی رہے ہیں
نہ کوئی فکرِ جہاں ہے، نہ کوئی خوفِ فنا
عجب جنوں، عجب عالم، عجب ستم جی رہے ہیں
جو زندگی کا بھروسہ کیے ہوئے ہیں یہاں
وہ اپنی بھول میں، اپنا الم جی رہے ہیں
ندیمؔ، یہ خوش فہمی ہے کہ کوئی اپنا ہے
کہ دل کے ساتھ بہت سے الم جی رہے ہیں

0
3