| بتا دنیا میں نام اس کا دلِ ناکام کیا ہوگا |
| مٹایا عشق میں خود کو تو اس کا نام کیا ہوگا |
| بہت روتے سسکتے ہیں، تڑپتے، آہیں بھرتے ہیں |
| لگایا عشق میں جب دل تو پھر آرام کیا ہوگا |
| بہت اچھا ہوا سہہ کر ستم بے ہوش ہو بیٹھا |
| کہ اب مدہوش عاشق کو حسِ آلام کیا ہوگا |
| ملا کر اک نظر جب کہ گرایا ہوش سے یکسر |
| ارے ساقی نظر ایسی ہے تیرا جام کیا ہوگا |
| پلا توہی، نبھا تو ہی، بقا دے یا فنا کر دے |
| ترا مدہوش اے ساقی کسی سے رام کیا ہوگا |
| غم و رنج و دہائی، آہ و نالے اور کیا ہوں گے |
| گیا جو کام سے دل کے تو اس سے کام کیا ہوگا |
| بھرے دن سے ہی مستی نے رکھی بینائی گُل کر کے |
| اگر دن کی یہ حالت ہے تو حالِ شام کیا ہوگا |
| اسی قاتل نگاہی کا ہوا مقتول میں لیکن |
| میں خود کو مار ڈالا ہوں تجھے الزام کیا ہوگا |
| ذکیؔ تو نے ستم گر عشق سے کیوں کر لگایا دل |
| خدا جانے ترے آغاز کا انجام کیا ہوگا |
معلومات