| یار کے در سے ملی ہے تو حقارت بھی سہی |
| اس کے ہاتھوں سے ملا غم تا قیامت بھی سہی |
| کون کہتا ہے مجھے ان کی حمایت بھی ملے |
| وہ کریں گر تو یوں بے بات ملامت بھی سہی |
| کیا کرنا مجھے ہر بات کی سچائی سے اب |
| کرتے ہیں گر وہ تو یوں جھوٹ پہ حجت بھی سہی |
| مرتے ہو کیوں یوں محبت کی قرابت کے لئے؟ |
| اس کی خاطر جو کروں میں تو وہ ہجرت بھی سہی |
| عشق کے رستے میں ہوں تو گدا گر ہی سہی میں |
| اس کے در سے جو میں مانگوں تو وہ حاجت بھی سہی |
معلومات