ویران شب تھی چاند کہیں پر رکا رہا
ہم نے چراغ دل کا جلایا، جلا رہا
اس نے ہوا کی اوٹ سے چہرہ دکھا دیا
اک چاند شب کے پردے میں رہ کے چھپا رہا
دل کی گلی میں جلتی رہی آرزو کی لو
اک شخص تھا کہ جس کا فقط تذکرہ رہا
بارش میں اس کا عکس تھا ہر سو بکھر گیا
پتوں پہ نام اس کا بہت دن لکھا رہا
آنسو رواں تھے آنکھ سے، دریا سا چل پڑا
یادوں کا اک جزیرہ کئی شب جلا رہا
تنہائیوں کی راہ میں دیوار وہ بھی تھا
جس کی نظر کا سایہ بھی مجھ سے جدا رہا
جو خواب لا کے رکھ دیا تھا میں نے پھر کہیں
ہر لمحہ وہ نگاہ سے اوجھل ہوا رہا

0
9