| وہ جو شخص خواب تھا، خواب ہی رہا، نہ ملا، نہ بھول سکا کبھی |
| میں تو ہنس کے جی بھی لیا مگر، وہ غمِ وصال رہا، کبھی |
| مرے دل میں چاند سا عکس تھا، وہی عکس ٹوٹ کے رہ گیا |
| میں جو لمس چاہ کے کھو گیا، وہی لمس ہاتھ لگا، کبھی |
| کسی شام اس کی جدائی نے، مری آنکھ بھیگ سی دی تھی |
| پھر وہی نمی مری روح میں، کسی رات گونج گئی، کبھی |
| یہ جو لوگ کہتے ہیں "پیار کر"، انہیں کیا خبر ہے عشق کیا |
| یہ وہ آگ ہے جو جلا گئی، مگر راکھ بن نہ سکا، کبھی |
| تری یاداب بھی سجی ہوئی مرے دل کےٹوٹےہوئے حصوں میں |
| میں نے سوچا بوجھ ہلکا کروں، مگر زخم چھُو نہ سکا کبھی |
| تری بات اب بھی دعا بنی، تری خامشی بھی صدا بنی |
| میں جو رو دیا تری یاد میں، وہی اشک حرف بنا، کبھی |
| میں خموش رہ کے بھی کہہ گیا، وہی درد حرف میں ڈھل گیا |
| کہ جو بات لب پہ رکی رہی، اُسے ندیم لکھ گیا، کبھی |
معلومات