| جو دل پر زخم لگتے ہیں، وہ کیا اب آشنا ہوں گے؟ |
| یہ اپنے درد کے قصے، سرِ محفل بیاں ہوں گے |
| کوئی پرسانِ حال اپنا، کہاں اب اس زمانے میں |
| جو اپنے تھے سو بیگانے، وہ کیوں کر مہرباں ہوں گے؟ |
| یہ مانا بے وفائی ہے، مگر شکوہ نہیں کوئی |
| یہاں تو پیار کے دعوے، فقط دھوکا و گماں ہوں گے |
| عجب یہ زندگی اپنی، عجب یہ دل کا عالم ہے |
| نہ کوئی غم ہے الفت کا، نہ کوئی اب نشاں ہوں گے |
| یہ رسوائی، یہ بدنامی، یہی اب زندگی ٹھہری |
| جو ہونا تھا سو ہو گزرا، یہی اب داستاں ہوں گے |
| نہ پوچھو رازِ ہستی کو، نہ کر ذکرِ محبت تو |
| جو دل سے ہم نے پالے تھے، وہی اب بدگماں ہوں گے |
| یہ دل اب چین پائے گا، یہ آنسو خشک ہوں گے اب" |
| مگر جو زخمِ پنہاں ہیں، وہ کب ناپید یاں ہوں گے؟ |
| ندیمؔ اب شاعری چھوڑو، یہ سب بیکار باتیں ہیں |
| کہاں غالب کی وہ شوخی، کہاں یہ اب بیاں ہوں گے |
معلومات