| شہرِ خاموش میں سرگوشیِ بادہ کیا ہے |
| خواب بیدار اگر ہو بھی تو وعدہ کیا ہے |
| روشنی مانگنے نکلا ہوں ستاروں سے مگر |
| آئینے پوچھ رہے ہیں مرا سایہ کیا ہے |
| لفظوں کو شوق بہت تھا جو غزل کہنے کا |
| قافیہ کی گرہ میں الجھے ہیں جملہ کیا ہے |
| میں نے چھو کر بھی نہ بدلا کوئی منظر پھر بھی |
| سب کی نظروں میں جو ٹھہرا وہ نظارہ کیا ہے |
| بے صدا راہ گزر میں، کوئی سایہ بھی نہیں |
| ویراں دل کی گلی میں روز تماشا کیا ہے |
| خاک پر لکھ دیا احساس کا منتر میں نے |
| اب ہوا خود سے الجھتی ہے کہ چرچا کیا ہے |
| دل نے اک شام کو دیوار سے سر پھوڑ لیا |
| اب بتا، شہر میں رہنے کا ارادہ کیا ہے |
معلومات