یہ جہاں صرف خواب سا نکلا
ایک فانی سراب سا نکلا
دھوپ چھاؤں کے کھیل میں آخر
ہر تعلق عذاب سا نکلا
ہم نے مانا جو دوست دشمن تھا
وہ بھی چہرہ نقاب سا نکلا
نام، شہرت، زباں سبھی دھوکہ
ہر کرشمہ حجاب سا نکلا
وقت کا ہر ورق بدلتا ہے
آدمی بھی کتاب سا نکلا

12