| ہجومِ شہر سے اک دشت سا بنا ہوا ہے |
| یہ ہر شخص یہاں جیسے تنہا سا کھڑا ہوا ہے |
| کھویا ہوا سا ہے وہ، اپنی جستجو میں شاید |
| جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے پڑا ہوا ہے |
| ہر ہاتھ میں ہے ایک بے جان سی مشین، مگر |
| سب کے دلوں میں سنسان سا اک خلا ہوا ہے |
| وہ چاند بھی اُسی کی یاد میں روشن ہے ابھی تک |
| جو اِک مکان میں قفل سا لگا ہوا ہے |
| اِک شخص کے بدن کو، سائے تلاشتے پھرتے ہیں |
| جو اپنے آپ سے ہی کہیں چھپا ہوا ہے |
| یہ زندگی بھی کس موڑ پہ لے آئی ہے سب کو |
| کہ ہر چہرے پر خاموشی کا غلاف چڑھا ہوا ہے |
| بہت سے کام تھے، جو کر لیے گئے پل بھر میں |
| پر وہ ایک کام ہے جو آج بھی پڑا ہوا ہے |
| کہتا ہے یہ ندیمؔ ہر گلی سے پوچھ کر |
| کیوں زندگی سے ہر کوئی ڈرا ہوا ہے |
معلومات