| حضرتِ جامیؔ کے رستے ہم یہاں چلنے لگے |
| کوچہ کوچہ کو بکو ان کی صدا سننے لگے |
| عشق کے آبِ وفا سے جب وضو کرنے لگے |
| حضرتِ بیتاب دل کی بھی فضا بننے لگے |
| دیکھ لی فیضِ ادب کی جب بہارِ نو چلی |
| خسرویِ پارسائی سے یہ دل مچنے لگے |
| نسبتیں مظبوط ہوں بجھ جاتی ہے یہ تشنگی |
| بہترینِ حسرتاں کو جب نمی ملنے لگے |
| ایک دیوانوں کی محفل محو دیکھی رات دن |
| ساز الفت کو سرائے بزم میں لکھنے لگے |
| آس رہتی ہے ہمیشہ اس نگاہِ فیض پر |
| جسکے ملتے ہی کشش پر کیف سی بڑھنے لگے |
| دل میں لیکر حسرتوں کی آہٹوں کو ساتھ ہی |
| ہم بھی ایسے مہجبینوں کی طرف چلنے لگے |
| راحتیں ملتی ہیں دل کو محسنوں کے پیار سے |
| مل گیا اُن کا کرم زَخمِ جِگر بَھرنے لگے |
| مل گئی بیزار دل کو اک نئی سی تازگی |
| جب نوائے عاشقی سے رازداں ملنے لگے |
| مجھکو پھر نغموں پہ اکسانے لگا ان کا بھرم |
| دل نے جب پائی جلا حرفِ دُعا چلنے لگے |
| رکھ گئی مژگاں پہ موتی یاد تھی اک مضطرب |
| پھر چمک ان موتیوں کی داستاں بننے لگے |
| ہم کو کر دو گر عنایت قرب اپنی بزم کا |
| اب تمنائی کا دل بھی تو شفا لینے لگے |
| مل گئی ارشدؔ کو نسبت جامیؔ و تسلؔیم کی |
| کیوں نہ پھر یہ دل مرا بھی شہنشاہ بننے لگے |
| مرزا خان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات