| چلی ہوا ترے منہ سے جب انکشاف چلے |
| مرے بھرے ہوئے کیسٹ مرے خلاف چلے |
| گھنے درخت بھی کرتے ہیں اس کی آؤ بھگت |
| جو دھوپ چھاؤں میں لے کر ترا لحاف چلے |
| اڑے تو بادِ مخالف سے اختلاف رہا |
| چلے تو خود سے بھی ہم کر کے انحراف چلے |
| سفر تمام ہوا ہم نے تین حرف کہے |
| پھر اس کے بعد یہاں عین شین قاف چلے |
| تری تو خیر یہ حسرت تھی ہے رہے گی بھی |
| جھکے معافیاں مانگے کروں معاف چلے |
| کہاں کہاں ترے حق میں گواہی دیتا پھروں |
| کہاں کہاں مرا دنیا سے اختلاف چلے |
| غلام گردشوں میں کھو چکے خدا راجا |
| کہیں رکے مرا کعبہ تو پھر طواف چلے |
معلومات