فقط دل کی لگی کا تھا سہارا میرے دلبر سے
مگر اب زندگی ہے آشکارا میرے دلبر سے
مجھے ہر پل یہ ڈر رہتا، کہیں کوئی نہ سن لے بات
چھپا رکھا ہے میں نے سب اشارا میرے دلبر سے
یہی کافی نہیں ہے کیا کہ وہ میرے ہوئے آخر
یہی کافی نہیں ہے کیا نظارا میرے دلبر سے
نہ دولت کام آئی ہے، نہ منصب کام آیا ہے
نہ کچھ پایا زمانے میں، نہ خارا میرے دلبر سے
ملا ہے جو سکوں مجھ کو، کسی سے مل نہیں سکتا
یہ دل روشن ہوا جیسے، ستارا میرے دلبر سے
ہزاروں غم سہے میں نے، ہزاروں درد دیکھے ہیں
مگر پھر بھی نہیں ٹوٹا کنارا میرے دلبر سے
یہ دنیا اب بھلی لگتی، یہ عالم خوب لگتا ہے
سجا ہے ہر طرف جیسے نظارا میرے دلبر سے
مجھے فرصت نہیں ملتی کہ میں دیکھوں کوئی شے اور
کہ دل نے ڈھونڈھ لی ہے دل بہارا میرے دلبر سے
محبت دل کی لگی تھی یا کوئی تھا رنج و غم جاناں
یہ پوچھو اے ندیمؔ اب کے دوبارہ میرے دلبر سے

0
3